Thursday, January 28, 2010

لکھنے والے

بالآخریوسف چاہ سے نکلاورنعت کائنات کاآفتاب طلوع ہوا۔
یہ کیوٹی وی کی ادبی محفل تھی ۔موضوع تھا’مظفروارثی کی نعت کائنات ‘مجمع خاص وعام تھا۔۔۔الحمراہال میں جذبوں کاسمندرامڈاہواتھا۔۔۔حسان العصرجناب مظفروارثی رونق ِمحفل تھے ۔۔۔صاحبزادہ تسلیم صابری سٹیج سیکرٹری تھے ۔۔۔اورمشہورادیب شاعر‘نقاداوراہل ِعلم اپنے خیالات کااظہارکررہے تھے ۔ مزیدیہ کہ معروف ثناخوانوں سے مظفروارثی صاحب کاکلام سناگیا۔
تسلیم صابری نے محفل کے آغازمیں مظفروارثی صاحب کی تشریف آوری کواپنے لئے خوش قسمتی قراردیا۔۔۔انہوںنے آغازسخن کرتے ہوئے مظفروارثی صاحب کی علمی ‘ادبی اورفنی خدمات اوران کے اعترافات کے طورپرملنے والے ان گنت ایوارڈزکاتذکرہ کیا۔ان کے بعدعمران نقوی آئے اور انہوں نے تسلیم صابری کی بات کوآگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ مظفروارثی کی شہرہ آفاق حمدوہی خداہے کہ کوبہت سے گلوکاروں‘نعت خوانوں اورقوالوں نے پڑھاہے ۔۔۔لیکن ایک صداکارایساہے ۔۔۔جس نے یہ کلام پڑھاہے اورایساپڑھاہے کہ آپ بے حیل وحجت توحیدپرایمان لے آتے ہیں۔۔۔اور نصرت کے پڑھے کاتاثرجاتارہتاہے ۔عمران نقوی نے کہاکہ فلمی گیتوں ‘غزلوں ‘نظموں ‘قطعات اورہائیکونے مظفروارثی کویہ فائدہ ضرورپہنچایاکہ ان کی شاعری میں مولویانہ پن نہیں ملتا۔دین ہویا سیرت ِپاک ‘گویاآپ کے تجربات کاحصہ بن کربڑی سہولت سے شعرمیں ڈھل جاتے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ مظفروارثی صاحب معلوم زبانوں کے وہ اولین شاعرہیں جن کاالگ سے حمدیہ مجموعہ الحمدکے نام سے شائع ہوا۔۔۔نعتیہ مجموعوںمیں عام طورپرحمدکوفارمیلٹی کے لئے شامل کیاجاتاہے ۔ ۔۔لیکن اس سے پہلے یہ سعادت کسی اورکے حصے میں نہیں آئی ۔ختم سخن کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ قیام ِپاکستان کے بعدکے مقبول اورپراثرترین شعراکی اگرفہرست بنائی جائے توسرِفہرست دوتین ناموں میں ایک نام مظفروارثی کاہوگا۔
عباس تابش نے کہاکہ مظفروارثی بنیادی طورپرغزل کے شاعرہیں ۔بھرپورغزل کہتے کہتے آپ کائنات ِنعت میں داخل ہوئے تواس عظیم صنف ِسخن کووسیع ترشعری وحدت میں پرودیا۔۔۔آپ نے ہمارے کئی شعراکی طرح غزل کوپونچھ پانچھ کرنعت نہیں بنایا۔۔۔نعت کہی توبطورنعت کہی اورغزل کہی توآپ اس میں نعت کے تمام ترمحاسن موجودپائیں گے ۔اس طرح مظفروارثی نے نعت کوشعری یک جہتی کاحصہ بنادیاہے ۔
سعیداللہ صدیق نے کہاکہ مظفروارثی کی نعت کے تغزل میں کسی کوشبہ نہیں ہے ۔۔۔اس میں غزل بھی ہے ‘نظم بھی ۔ان کے کلام کاایک اپناہی ہیئتی نظام ہے ایک اپنی ہی فضاہے جواردونعتیہ شاعری میں صرف انہی سے مخصوص ہے ۔
یہ بات ڈاکٹرشبیہ الحسن نے کہاکہ حضرت مظفروارثی کی نعت کاایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ وہ خارجی ماحول سے بے تعلق نہیں ہے ۔۔۔خارجی حالات سے براہ ِراست تعلق کی مثال میں انہوں نے حالی کے کلام کاحوالہ دیااورکہاکہ زوال امت پرکڑھتے ہوئے مظفروارثی نے نعت کوہتھیاربنایااورنعتوںمیں آقاحضورسے عرض احوال کاایک تاریخی سلسلہ شروع کیا۔۔۔یوں ان کے نعتیہ خزینے میں انقلابی اور اصلاحی نعتوںکے انمول سکے جابجاچمکتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔جن کی چمک میں عہدکی ہولناک تباہی اورامت ِمسلمہ کی بربادی کامفصل نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتاہے ۔
ہمارے حجرہ ء عرفاں پہ تالہ کس نے ڈالاہے ۔ہمیں مل جائے اس تالے کی چابی یارسول اللہ
گویانعت اورصحافت کایہ انوکھاامتزاج بھی وارثی صاحب کاخاصہ ہے ۔انہوں نے مزیدکہاکہ مظفر وارثی صاحب کے نعتیہ مضامین بھی یکسرنئے ہیں ‘ان کی لفظیات ‘تشبیہات اوراستعارات سب ان کے اپنے ہیں ۔ایساممکن ہی نہیں کہ ان کے کلام کوآئندہ صدیوں میں کبھی گئے زمانے کی یادگارسمجھ لیاجائے ۔
بقول ِشاعر ۔گریہ نہیں توباباپھرسب کہانیاں ہیں۔
دیگرمقررین میں مفتی مجددی اورڈاکٹرظفروارثی بھی شامل تھے ۔کئی ثناخوانوں نے مظفروارثی کاکلام پڑھا‘جن میں محبوب احمدہمدانی (یارحمت اللعالمیں)‘شہبازقمرفریدی(وہی خداہے )‘الحاج اخترقریشی
(مفلس ِزندگی اب نہ سمجھے کوئی)اورسرورحسین نقشبندی (عید ِولادِمصطفی )شامل تھے ۔
تسلیم صابری نے کہاکہ نعت کاشعری سفرنصف صدی کاقصہ ہے جس کی پرتوں کوکھولنے کے لئے یہ ایک پروگرام بہت چھوٹاہے ۔انہوں نے کہاکہ وہ حافظ ِمظفروارثی ہیں اوران کی خوش نصیبی ہے کہ حضرت ِوارثی کاجوکلام پڑھ کرانکوشہرت ملی ہے ‘وہ وارثی صاحب کے سامنے پڑھنے کاشرف حاصل کررہے ہیں ۔تمام مقررین نے مظفروارثی صاحب کی موجودگی کواپنے لئے سعادت قراردیااوران کی جسمانی اورشعری صحت وسلامتی کے لئے دعاکی ۔مظفروارثی صاحب نے اس خراج ِتحسین کومصطفی کریم کے کرم سے منسوب کرتے ہوئے حاضرین کاشکریہ اداکیا۔اس موقع پرپہلی مرتبہ ان کے صاحبزادے حسیب عرفی نے بھی والد ِگرامی کے شعری پیغام کوایک نہایت عمدہ مقالے کی صورت میں پیش کیا۔محفل قریب دوگھنٹے جاری رہی۔یہ پروگرام کیوٹی وی کی ربیع النورکی ٹرانسمیشن کے حوالے سے ریکارڈکیاگیا۔اس کانشرہوناابھی باقی ہے ۔اس سے پیشترتسلیم صابری کیوٹائم کے لئے جناب مظفروارثی صاحب کاانٹرویوریکارڈکرچکے ہیں جس کی مکمل فوٹیج یوٹیوب پرموجودہے ۔
محفل کے اختتام پروارثی صاحب کے گرداگردپروانوں کاایک ہجوم تھا۔ایسے میں عمران نقوی اورسعیداللہ صدیق کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے چپکے سے کہاکہ ایسی محفلیں لکھنے والے (جومعاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں)کے زندہ رہنے کے عزم میں اضافہ کرتی ہیں ۔دیرسے سہی لیکن نیک فال یہ ہے کہ کسی کولفظوں کی یہ تہذیب واپس لانے کاخیال توآیا۔
انوارزندہ صحبت باقی

Naat Kainaat

“He has the distinction of being the first person having a book of only Hamd” declares Imran Naqvi, about Muzaffar Warsi.
Muzaffar Warsi, author of more than two dozen works of poetry, and the best sellers Gaye Dino'n Ka Suraagh,remains one of the most hotly debated Pakistani artists of the past half-century.In his wide ranging roles as ground breaking poet, Muzaffar Warsi has influenced two generations of poets and readers on how to write, hear, read and use poetry and myth as psychological revelation, guidance and interpretation.
“When the cultural and intellectual history of our time is written, Robert Bly will be recognized as the catalyst for a sweeping cultural revolution.”
Dr. Shabih Ul Hasan.

An Evening with Muzaffar Warsi

Qtv's Special Event - Naat Kainaat
Qtv brings acclaimed poet Muzaffar Warsi to Alhamra for a Tribute.

Date and Time:
Wednesday, January 27, 2010. 6:00 PM.
Approximate duration of 2 hour(s).

Location:
Alhamra Hall (Hall No.3)

Audience:
Faculty/Staff
Family/Friends
General Public
Students

Category:
Lectures/Readings

Contact:
0300-8870195
anwaargilani@hotmail.com

Admission:
Free and open to the public.

Wednesday, January 20, 2010

سچاشاعر

ظ -انصاری(بھارت)
جس دورمیں ہم جی رہے ہیں‘اس میں آرٹ ہویاسائنس ‘ سیلزمین شپ بڑی اہمیت ختیارکرگئی ہے ۔
دیکھایہ جاتاہے کہ پیکنگ کیسی ہے ۔اگرکہواندرلہسن کی گانٹھ ہے توقیمت اکنی اورکہوکہ اس کانام لہسوناہے ورکمپنی کانام انٹرنیشنل ٹریڈنگ کارپوریشن ہے توپیکنگ کی قیمت باقی پندرہ آنے ۔یہی ادب میں ہورہاہے اوربہت عرصے سے ہورہاہے ‘لیکن ہمارے معززمہمان جناب مظفروارثی ‘جن کے اعزازمیں یہ محفل برپاہے اورجنہیں سننے کے لئے میں حاضرہوا۔ ان کے کلام سے انسپائریشن ملا۔ پہلے توان سے میری ملاقات نہیں ہے ۔ پڑھتارہتاہوں۔ ان کانام آتاہے توغورسے پڑھتاہوں لیکن تعافرف صحیح آج ہوا۔مجھے ایسامحسوس ہوتاہے کہ شاعری وہ ‘ جس میں شاعرکوجھانکاجاسکیے ۔مظفروارثی کے شعروں میں خاص طورپرغزلوں میں کرب ‘انا‘سچائی ‘دھوپ چھاؤں ‘روپ رنگ ‘لمحوں کارنگ ‘یہ سب کیفیات موجودہیں یعنی شاعرپوئٹ دی پرسن غزل کے استعاروں میں سے جھانک رہاہے ۔

جدید غزل گو

احسان دانش
زیر ِنظرتحریرمیں بزرگ شاعراحسان دانش نے جس فراخ دلی سے مظفروارثی کی عظمت فن کااعتراف کیاہے ‘وہ بجائے خودلائق ِدادوتحسین ہے۔ملاحظہ فرمائیے


نئی طرزکے لکھنے والوں میں جدیدغزل کامعیارمظفروارثی کی غزل سے قائم ہوتاہے ۔اگریہ شاعرنہ ہوتاتونہ جانے یہ نئی نسل کاقافلہ کہاں کہاں اورکدھرکدھربھٹکتاپھرتا۔
غزل میں رومانیت ،نفسیات ،فلسفہ اورمنظرنگاری یوں توسبھی اچھے شاعروں میں ملتی ہے لیکن طریق ِاظہار‘اسلوب‘ بیان اورنئے پن کا خوبصورت اندازجومظفروارثی کے یہاں ملے گا‘وہ اس ہجوم ِشاعراں میں کسی کے یہاں نہیں ہے ۔میں پھرکہوں گاکہ اس دورکی غزل کامعیارمظفروارثی کی شاعری سے ہی قائم ہوگا۔اوراس سے کم درجے کی شاعری شاعروں کوفن کاروں کی صف میں نہیں آنے دے گی۔

اندرکی آواز





محبت سچ اوربے خوفی ‘ایک احساس کے تین نام رکھ چھوڑے ہیں اوراسی نہ اترنے والے بوجھ سے زندگی آراستہ ہے ۔سوکھی شاخ کے ٹوٹنے کی تڑاخ اورجلتے توے پرپانی کی بوندہم سے کچھ مختلف نہیں ‘ کم آمیزی اور کم گوئی کویارلوگوں نے ہماراغرورجانا‘ جاناہی نہیں ہم پرچھاپ لگائی ۔
ہم نے سادہ ترین لباس پہنالیکن انااورخوداعتمادی کوقیمتی کپڑے پہنائے ‘ خوش گلوئی کواضافی خوبی سمجھا‘ لفظ پرآوازکوکبھی ترجیح نہیں دی ‘ خیرخواہوں کابس چلے توہماری عزت شہرت اورسوچیں کوڑے پرپھنکوادیں ۔ ہم ہمیشہ اپنے اسلوب پرقناعت کی جگالی سے دوررہے ‘ شاعری ہماری کچھ لگتی ہے یانہیں اس کاسراغ قاری کولگاناہے ۔شعرکی آڑمیں جوکچھ کہاوہ خوشبوہے یادھواں ‘ اس کافیصلہ بھی آپ کے ہاتھ ہے ‘ ہماراکوئی دعویٰ نہ خواہش
انیس مطبوعہ شعری مجموعے اور ایک خودنوشت سوانح حیات کی حشرسامانیاں اٹھائے پھرتے ہیں ‘ یہ گٹھڑی کہاں کھل کربکھرجائے کچھ خبرنہیں
مظفروارثی

Sunday, January 17, 2010

نگاہ ِاولیں

مظفروارثی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔مبداء فیض نے بیک وقت انہیں جوشخصی خواص اورفنی خوبیاں عطاکی ہیں ،کم ہی لوگوں کونصیب ہیں۔مثال کے طورپردیکھاگیاہے کہ شاعرعموماخوش الحانی سے محروم ہوتے ہیں لیکن مظفروارثی کے ہاں اسلوب کی انفرادیت بھی مسلمہ ہے اوران کی خوش الحانی کے بھی مداح دنیابھرمیں پھیلے ہوئے ہیں۔ان کے گلے میں لحن ِداؤدی کی جو شیرینی ہے، اس نے ایک زمانے کی سماعتوں میں رس گھول رکھاہے۔یہ اس کی دین ہے جسے پروردگاردے۔
اقلیم شعروسخن میں مظفروارثی کوہرصنف ِسخن پرملکہ حاصل ہے لیکن ان کی جامعیت کاصحیح اندازہ آج تک کوئی کرہی نہیں سکا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں عالمگیرشہرت نعت گوئی سے حاصل ہوئی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے غزل ،نظم،ہائیکواورنثرکے میدان میں جوکارہائے نمایاں سرانجام دئیے، ادبی شخصیات ،ہمعصرشعراء اورنقادوں نے انہیں قابل ِغورہی نہیں سمجھا۔یوں کہنامناسب ہوگاکہ ان کے کام سے ہماری ادبی شخصیات نے چشم پوشی کی جوبہت بڑی ناانصافی ہے۔میں سمجھتاہوں کہ اس کی وجہ ان کی انفرادیت ہے جوہمعصرشعراء کوہضم نہیں ہوئی اورجس سے کوتاہ قامت نقادوں کوپریشانی لاحق ہوگئی۔دراصل کسی بھی عہدسازشخصیت اورفنی اعتبارسے قدآورانسان سے تعلق رکھنااورسمجھناکوئی مذاق نہیں ۔مقابل خودکو بالشتیامحسوس کرنے لگتاہے۔جب وہ اسے سراٹھاکردیکھتاہے تواس کے اندربرہمی اورکمتری لاوے کی شکل میں ابلنے لگتی ہے ۔اسے ایسالگتاہے جیسے وہ کوئی عاقل وبالغ انسان نہیں بلکہ چھوٹاسابچہ ہے اوراپنے باپ سے بات کررہاہے۔ظاہرہے یہ بات کسی کوبھی اچھی نہیں لگ سکتی۔
میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ میں ان سے ملا۔جب میں پہلی باران سے ملاتھاتودراصل میں نعت گو مظفر وارثی سے ملنے گیا تھا۔ان سے ملاتوپتہ چلاکہ نعت گوئی توان کی فنی شخصیت کاصرف ایک حوالہ ہے،مکمل شخصیت نہیں۔میری ملاقات ایک عام سے لیکن سچے اورکھرے انسان،ایک بنیادپرست صوفی اورایک رمزشناس مورخ سے ہوئی۔پھران سے لامتناہی ملاقاتوں کاایک سلسلہ چل نکلا۔جیسے لاہورمیں رہ کرآپ داتاصاحب کے اثرسے بچ نہیں سکتے اسی طرح مجھے ہرراستہ مظفر وارثی صاحب کے گھرکی راہ لیتادکھائی دیتاہے ۔شروع شروع میں میں یہ سمجھتا تھا کہ ان کی محفل میں جنریشن گیپ مسئلہ بنے گالیکن آپ کے ہاں نہ مرعوبیت تھی نہ ہی میں۔محفلیں ایسی جمتیں کہ گھنٹوں باتیں ہوتیں۔آپ کی باتیں دل کے قفل کھول کرذات میں کہیں جذب ہو جاتیں۔آپ اکثراپنی ذاتی زندگی کے اوراق پلٹ کرگویا برصغیرکی تاریخ کھول کرسامنے رکھ دیتے اورحالات ِحاضرہ پراپنے تاثرات اورمشاہدات شئیر کیاکرتے ہیں۔کرم نوازی کایہ عالم ہے کہ مجھے بالکل اولادکی طرح محبت دیتے ہیں۔( یہ اوربات ہے کہ آپ کے سامنے مجھ پر ہمیشہ عقیدت میں بھیگے ہوئے کسی مریدکی سی کیفیت طاری ہوجایاکرتی ہے۔یہ میرے دل ودماغ پرآپ کی روحانیت کا ایسا تاثرہے جوکبھی بھی زائل نہیں ہوسکا۔میں نے توایک آدھ باران سے یہ بھی کہاہے کہ اگروہ بیعت وارشادکاسلسلہ شروع کریں توان کاپہلامریدمیں ہی ہوں گا )
آپ کی یہ خواہش رہی ہے کہ آپ کے فنی کارہائے نمایاں پرپی ایچ ڈی کی جائے ۔میں اپنی نااہلی کااعتراف کرتاہوں کہ ایسانہیں کرپایالیکن یہ بے ہنگم اوربے ربط سے لفظوں کاڈھیرآپ کی نذرکرنے کولایاہوں کہ میرے لفظوں کوکہنے اوربولنے کاسلیقہ بھی توآپ ہی کاسکھایاہوا ہے۔سواب جوہے ،وہ پیش ِخدمت ہے۔ع
گرقبول افتدزہے عزوشرف
اس بلاگ کومیرے استادسخن اورعہد حاضرکے عظیم سخنورجناب مظفروارثی کی اردو ادب میں بے حدخدمات کوکی طرف سے پیش کیاجانے والاحقیرساخراجِ تحسین سمجھاجائے ۔اس میں اردوکے معروف ادبااورشعرا کی وہ تحریریں بھی شامل رہیں گی ‘جوانہوں نے مختلف اوقات میں جناب مظفر وارثی کی شاعری کے حوالے سے تحریرکیں۔
اس مجموعے کوملاحظہ ومطالعہ کے بعدآ پ بے ساختہ دادتودیں گے ہی، دعابھی دیجئے گاکہ خدائے بزرگ وبرترسے انہیں لکھنے کیلئے طبعی عمرملتی رہے۔یہ دعاؤں کی ایمانی قوت ہے جوزلیخاکوبڑھاپے میں جوان بنادیتی ہے۔میں بھی دعاگوہوں ،وہ خودبھی دعاگوہیں۔آپ بھی دعاکیجئے۔

سیدانوارگیلانی