بالآخریوسف چاہ سے نکلاورنعت کائنات کاآفتاب طلوع ہوا۔
یہ کیوٹی وی کی ادبی محفل تھی ۔موضوع تھا’مظفروارثی کی نعت کائنات ‘مجمع خاص وعام تھا۔۔۔الحمراہال میں جذبوں کاسمندرامڈاہواتھا۔۔۔حسان العصرجناب مظفروارثی رونق ِمحفل تھے ۔۔۔صاحبزادہ تسلیم صابری سٹیج سیکرٹری تھے ۔۔۔اورمشہورادیب شاعر‘نقاداوراہل ِعلم اپنے خیالات کااظہارکررہے تھے ۔ مزیدیہ کہ معروف ثناخوانوں سے مظفروارثی صاحب کاکلام سناگیا۔
تسلیم صابری نے محفل کے آغازمیں مظفروارثی صاحب کی تشریف آوری کواپنے لئے خوش قسمتی قراردیا۔۔۔انہوںنے آغازسخن کرتے ہوئے مظفروارثی صاحب کی علمی ‘ادبی اورفنی خدمات اوران کے اعترافات کے طورپرملنے والے ان گنت ایوارڈزکاتذکرہ کیا۔ان کے بعدعمران نقوی آئے اور انہوں نے تسلیم صابری کی بات کوآگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ مظفروارثی کی شہرہ آفاق حمدوہی خداہے کہ کوبہت سے گلوکاروں‘نعت خوانوں اورقوالوں نے پڑھاہے ۔۔۔لیکن ایک صداکارایساہے ۔۔۔جس نے یہ کلام پڑھاہے اورایساپڑھاہے کہ آپ بے حیل وحجت توحیدپرایمان لے آتے ہیں۔۔۔اور نصرت کے پڑھے کاتاثرجاتارہتاہے ۔عمران نقوی نے کہاکہ فلمی گیتوں ‘غزلوں ‘نظموں ‘قطعات اورہائیکونے مظفروارثی کویہ فائدہ ضرورپہنچایاکہ ان کی شاعری میں مولویانہ پن نہیں ملتا۔دین ہویا سیرت ِپاک ‘گویاآپ کے تجربات کاحصہ بن کربڑی سہولت سے شعرمیں ڈھل جاتے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ مظفروارثی صاحب معلوم زبانوں کے وہ اولین شاعرہیں جن کاالگ سے حمدیہ مجموعہ الحمدکے نام سے شائع ہوا۔۔۔نعتیہ مجموعوںمیں عام طورپرحمدکوفارمیلٹی کے لئے شامل کیاجاتاہے ۔ ۔۔لیکن اس سے پہلے یہ سعادت کسی اورکے حصے میں نہیں آئی ۔ختم سخن کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ قیام ِپاکستان کے بعدکے مقبول اورپراثرترین شعراکی اگرفہرست بنائی جائے توسرِفہرست دوتین ناموں میں ایک نام مظفروارثی کاہوگا۔
عباس تابش نے کہاکہ مظفروارثی بنیادی طورپرغزل کے شاعرہیں ۔بھرپورغزل کہتے کہتے آپ کائنات ِنعت میں داخل ہوئے تواس عظیم صنف ِسخن کووسیع ترشعری وحدت میں پرودیا۔۔۔آپ نے ہمارے کئی شعراکی طرح غزل کوپونچھ پانچھ کرنعت نہیں بنایا۔۔۔نعت کہی توبطورنعت کہی اورغزل کہی توآپ اس میں نعت کے تمام ترمحاسن موجودپائیں گے ۔اس طرح مظفروارثی نے نعت کوشعری یک جہتی کاحصہ بنادیاہے ۔
سعیداللہ صدیق نے کہاکہ مظفروارثی کی نعت کے تغزل میں کسی کوشبہ نہیں ہے ۔۔۔اس میں غزل بھی ہے ‘نظم بھی ۔ان کے کلام کاایک اپناہی ہیئتی نظام ہے ایک اپنی ہی فضاہے جواردونعتیہ شاعری میں صرف انہی سے مخصوص ہے ۔
یہ بات ڈاکٹرشبیہ الحسن نے کہاکہ حضرت مظفروارثی کی نعت کاایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ وہ خارجی ماحول سے بے تعلق نہیں ہے ۔۔۔خارجی حالات سے براہ ِراست تعلق کی مثال میں انہوں نے حالی کے کلام کاحوالہ دیااورکہاکہ زوال امت پرکڑھتے ہوئے مظفروارثی نے نعت کوہتھیاربنایااورنعتوںمیں آقاحضورسے عرض احوال کاایک تاریخی سلسلہ شروع کیا۔۔۔یوں ان کے نعتیہ خزینے میں انقلابی اور اصلاحی نعتوںکے انمول سکے جابجاچمکتے دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔جن کی چمک میں عہدکی ہولناک تباہی اورامت ِمسلمہ کی بربادی کامفصل نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتاہے ۔
ہمارے حجرہ ء عرفاں پہ تالہ کس نے ڈالاہے ۔ہمیں مل جائے اس تالے کی چابی یارسول اللہ
گویانعت اورصحافت کایہ انوکھاامتزاج بھی وارثی صاحب کاخاصہ ہے ۔انہوں نے مزیدکہاکہ مظفر وارثی صاحب کے نعتیہ مضامین بھی یکسرنئے ہیں ‘ان کی لفظیات ‘تشبیہات اوراستعارات سب ان کے اپنے ہیں ۔ایساممکن ہی نہیں کہ ان کے کلام کوآئندہ صدیوں میں کبھی گئے زمانے کی یادگارسمجھ لیاجائے ۔
بقول ِشاعر ۔گریہ نہیں توباباپھرسب کہانیاں ہیں۔
دیگرمقررین میں مفتی مجددی اورڈاکٹرظفروارثی بھی شامل تھے ۔کئی ثناخوانوں نے مظفروارثی کاکلام پڑھا‘جن میں محبوب احمدہمدانی (یارحمت اللعالمیں)‘شہبازقمرفریدی(وہی خداہے )‘الحاج اخترقریشی
(مفلس ِزندگی اب نہ سمجھے کوئی)اورسرورحسین نقشبندی (عید ِولادِمصطفی )شامل تھے ۔
تسلیم صابری نے کہاکہ نعت کاشعری سفرنصف صدی کاقصہ ہے جس کی پرتوں کوکھولنے کے لئے یہ ایک پروگرام بہت چھوٹاہے ۔انہوں نے کہاکہ وہ حافظ ِمظفروارثی ہیں اوران کی خوش نصیبی ہے کہ حضرت ِوارثی کاجوکلام پڑھ کرانکوشہرت ملی ہے ‘وہ وارثی صاحب کے سامنے پڑھنے کاشرف حاصل کررہے ہیں ۔تمام مقررین نے مظفروارثی صاحب کی موجودگی کواپنے لئے سعادت قراردیااوران کی جسمانی اورشعری صحت وسلامتی کے لئے دعاکی ۔مظفروارثی صاحب نے اس خراج ِتحسین کومصطفی کریم کے کرم سے منسوب کرتے ہوئے حاضرین کاشکریہ اداکیا۔اس موقع پرپہلی مرتبہ ان کے صاحبزادے حسیب عرفی نے بھی والد ِگرامی کے شعری پیغام کوایک نہایت عمدہ مقالے کی صورت میں پیش کیا۔محفل قریب دوگھنٹے جاری رہی۔یہ پروگرام کیوٹی وی کی ربیع النورکی ٹرانسمیشن کے حوالے سے ریکارڈکیاگیا۔اس کانشرہوناابھی باقی ہے ۔اس سے پیشترتسلیم صابری کیوٹائم کے لئے جناب مظفروارثی صاحب کاانٹرویوریکارڈکرچکے ہیں جس کی مکمل فوٹیج یوٹیوب پرموجودہے ۔
محفل کے اختتام پروارثی صاحب کے گرداگردپروانوں کاایک ہجوم تھا۔ایسے میں عمران نقوی اورسعیداللہ صدیق کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے چپکے سے کہاکہ ایسی محفلیں لکھنے والے (جومعاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں)کے زندہ رہنے کے عزم میں اضافہ کرتی ہیں ۔دیرسے سہی لیکن نیک فال یہ ہے کہ کسی کولفظوں کی یہ تہذیب واپس لانے کاخیال توآیا۔
انوارزندہ صحبت باقی
Thursday, January 28, 2010
لکھنے والے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment